تجزیہ و تبصرہ :
استاد فرجی نژاد
ترجمہ : سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | سنیما کو ساتویں فن کے طور پر انیسویں صدی کے آخری سالوں (1895) میں فرانسیسی لومیر برادران (اگست اور لوئس لومیر) نے ایجاد کیا، اور ان کا نام سنیما کے ایجاد کے پیشوا کے طور پر درج ہوا۔ اس اہم ایجاد کے بعد امریکہ نے بھی فلم سازی کے لیے اہم قدم اٹھائے اور ہالی وڈ کو اپنی سنیمائی صنعت کے مرکز کے طور پر قائم کیا۔ "ہالی وڈ" کا لفظ اکثر امریکہ کے سنیما اور ٹیلی ویژن کے صنعت کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اور اس کا نام ایچ جے وائٹلی (H.J. Whitley)، جو کہ ہالی وڈ کے بانی سمجھے جاتے ہیں، نے رکھا تھا۔
ہالی وڈ کی سنیما کے شہرت وہاں موجود اسٹوڈیوز اور فلم سازی کی کمپنیوں کی وجہ سے ہے، جن میں سے سب سے اہم یہ ہیں:
1. کولمبیا
2. میٹرو گولڈوِن میئر
3. وارنر برادرز
4. ٹوینٹیئتھ سنچری فاکس
5. پیراماؤنٹ
تاہم، ان امریکی فلم سازی کے دیو ہیکل اداروں کے ساتھ دیگر کمپنیاں اور اسٹوڈیوز بھی قابل ذکر ہیں، جیسے آر کے او، یونائیٹڈ آرٹسٹ، یونیورسل، ایم جی ایم، اور والٹ ڈزنی۔
ہالی وڈ کی پہلی نمایاں فلم 1914 میں سیسل بی ڈی میل کی ہدایت کاری میں بنائی گئی، جس کا نام "خاتون نما مرد " تھا۔ 1908 سے 1913 کے درمیان ہالی وڈ میں بننے والی تمام فلمیں مختصر موضوعات پر مبنی تھیں۔ اس فلم کے ساتھ ہی ہالی وڈ کی فلم سازی کی صنعت کا آغاز ہوا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران ہالی وڈ دنیا کا سنیمائی دارالحکومت بن گیا۔ ہالی وڈ کی سب سے قدیم فلم سازی کمپنی "ویلیم ہورسلی" نے قائم کی تھی، جس کا نام "ہالی وڈ فلم لیب" رکھا گیا، جو بعد میں "ہالی وڈ ڈیجیٹل لیب" میں تبدیل ہو گیا۔
1950 کی دہائی میں موسیقی ریکارڈنگ کے اسٹوڈیوز ہالی وڈ منتقل ہوئے۔ ہالی وڈ کے بعض تاریخی تھیٹرز اب بڑے کنسرٹس، اہم تھیٹر شوز اور اکیڈمی ایوارڈز کی میزبانی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ہالی وڈ کی سنیما انڈسٹری 1903 میں کیلیفورنیا کی ریاست میں واقع شمالی لاس اینجلس کے مضافاتی علاقے اور گاؤں ہالی وڈ میں قائم ہوئی۔ امریکی حکومت نے اگست 2006 میں ہالی وڈ کے لیے جو حدود مقرر کیں، وہ مشرق میں بورلی ہلز اور مغربی ہالی وڈ کے علاقے تک، جنوب میں مَلہالینڈ روڈ، لوریل ویلی، برینینک اور گلینڈیل شہروں تک اور شمال میں میلروز ایونیو تک پھیلی ہوئی ہیں(1)۔
ہالی وڈ میں اسلاموفوبیا کا تصور
امریکہ میں اسلام دشمنی، خاص طور پر اس کی سنیما میں، خاموش فلموں کے زمانے سے موجود ہے اور آج تک جاری ہے۔ ہالی وڈ کی رسمی بنیاد 1909-1912 کے درمیان رکھی گئی، لیکن اسلام مخالف پہلی فلم 1897 میں تھامس ایڈیسن نے "فاطمہ رقص کرتی ہے" کے عنوان سے بنائی۔ اس فلم میں ایک مسلمان رقاصہ عورت کو دکھایا گیا ہے جو مردوں کو فریب دینے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔(2)
یہ برا رواج، جسے ایڈیسن نے سنیما میں متعارف کرایا، ان کے بعد بھی جاری رہا اور ہالی وڈ کی اسلام مخالف سنیما کا ایک مستقل اصول بن گیا، جو آج تک موجود ہے۔ حقیقت میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ "ایڈیسونی روایت" مغربی ثقافتی فضا اور میڈیا کی خبروں اور تصویری مواد میں ایک بیانیہ کی شکل اختیار کر گئی۔
گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد کے ابتدائی سالوں میں کیے گئے اعداد و شمار اور تحقیق اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی عوام کے ذہن میں مشرق وسطیٰ کے لوگوں کے خلاف ایک مخصوص تصور تشکیل دیا گیا۔ 2006 میں کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز کی رپورٹ کے مطابق، امریکی عوام کی اسلامی دنیا کے بارے میں معلومات بہت کم اور منفی تھیں۔ اس رپورٹ کے مطابق، صرف دو فیصد امریکی اسلام کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے تھے، اور 25 فیصد امریکیوں کا ماننا تھا کہ اسلام ایک پرتشدد اور نفرت انگیز مذہب ہے۔
مغربی میڈیا کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کرنے کی منفی فضا پیدا کرنے کی کوششیں کوئی نئی اور غیر معمولی بات نہیں ہیں۔ اس کی تاریخی جڑیں پیغمبر اسلام ص کی بعثت کے ابتدائی دور اور اس کے بعد اسلام کے یہودیت اور عیسائیت کے زیرِ اثر علاقوں میں پھیلاؤ سے ملتی ہیں۔ صلیبی جنگوں کے دوران، قدیم نوآبادیاتی نظام کی آمد اور پھر جدید نوآبادیاتی نظام کی صورت میں یہ تصادم مختلف شکلوں اور انداز میں جاری رہا(3)۔
گزشتہ سالوں میں ہالی وڈ کی جارحیت کے اہداف تبدیل ہو چکے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں روسی دہشت گردوں کی جگہ تیسرے ہزارے کے آغاز میں مسلمان اور عرب بنیاد پرست دہشت گردوں نے لے لی(4)۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد ایک دہائی تک امریکی میڈیا کی توجہ پہلے القاعدہ اور پھر اسلام اور مسلمانوں کی سرگرمیوں پر مرکوز رہی۔ یہاں تک کہ 2001 کے بعد کے چند سالوں میں مسلمانوں سے متعلق خبریں واضح طور پر جنگ کے خلاف دہشت گردی کے موضوع سے جڑی ہوئی تھیں۔(5)
ہالی وڈ میں شیعہ القابات اور لباس ِعلماء کا استعمال
کہانیوں کے کرداروں کے ساتھ "ہم ذات پنداری" یا "کرداروں سے یکسانیت محسوس کرنا" فلم اور کہانیوں کے اثرات کے حوالے سے ایک عام بحث ہے۔ یہی تخیلاتی یکسانیت سامعین کو کہانی میں شامل کر دیتی ہے اور انہیں اس کے تسلسل کو دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب کوئی فرد کسی کہانی کے ہیرو سے خود کو جوڑ لیتا ہے تو وہی چیزیں جو اس ہیرو کو پسند ہیں، سامعین کے لیے بھی پسندیدہ بن جاتی ہیں۔
اسلام، خاص طور پر تشیع سے سامعین کو متنفر کرنے کے لیے، طاقتور سنیما کا ایک اہم طریقہ شیعہ مخصوص القابات اور لباس کا استعمال ہے۔ جب سامعین کسی ہیرو کے ساتھ خود کو منسلک کر لیتے ہیں اور مخالف کردار کو دشمن تصور کرتے ہیں، تو ان کے لاشعور میں اس مخالف کردار سے متعلق ہر چیز کا ایک خوفناک تصور پیدا ہوتا ہے۔ یہ تصور حقیقی زندگی میں ان علامات یا ظاہری خصوصیات سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف منفی ردعمل کو جنم دیتا ہے، جیسا کہ ان کے نام یا لباس۔
1992 کی اینیمیشن علاءالدین(6 )میں دو منفی کردار، ایک وزیر دربار سلطان "جعفر" کے نام سے اور دوسرا پیشہ ور چور "کاظم" کے نام سے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح فلم بغدادکا چور (7) میں ایک اور منفی کردار وزیر "جعفر" کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ "جعفر" امام جعفر صادقؑ ع، جو کہ شیعوں کے چھٹے امام ہیں، کا لقب ہے، اور "کاظم ع" امام موسیٰ کاظمؑ،ع جو ہمارے ساتویں امام ہیں، ان کا لقب ہے۔ فلم دی ریسلر( 8)میں ایک مخالف کردار "آیت اللہ" کے نام سے ہے، جو کہ شیعہ عالم دین کے اعلی درجے پر فائز افراد کے ایک اہم خطاب کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
ہندی-ہالی وڈ فلم قربانی میں، کہانی کے دہشت گردوں کو شیعہ ظاہر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، حضرت علیؑ کی مدح میں ایک نظم بھی فلم میں شامل ہے، جس میں "علی مولیٰ" کے الفاظ بار بار سنائی دیتے ہیں، جو سامعین کے لیے ایک موٹیف کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔
فلم سنگسار ثریا میم میں، ثریا کا شوہر، جو فلم کا سب سے منفور کردار ہے، "علی" نام رکھتا ہے، اور گاؤں کا ملا، جو اس کے ساتھ سازش کرتا ہے، "حسن" نامی کردار ہے۔ "علی" شیعوں کے پہلے امام، حضرت علیؑ کا نام ہے، اور "حسن" شیعوں کے دوسرے امام، حضرت حسنؑ کا نام ہے۔
ہالی وڈ کی فلموں میں شیعہ عالم دین کو بدنام کرنے کے لیے منفی کرداروں کو شیعہ علما کے لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ ان فلموں میں اکثر ان بدکردار عالم دین شخصیات کی پہچان ان کے سر پر موجود سیاہ عمامے سے ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان فلموں کے پروڈیوسر ان لباسوں کے ذریعے ایران کے ان اسلامی رہنماؤں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اب تک دو معزز سادات کی قیادت میں حکومت کی ہے اور وہ سیاہ عمامے پہنتے ہیں۔ ان فلموں کا مقصد ناظرین کو ان عالی مقام شخصیات کے بارے میں بدگمان کرنا معلوم ہوتا ہے۔
اسرائیلی اداکار آلون ابوتبول(9) نے فلم مجموعہ همه دروغها میں "السلیم" نامی شیعہ عالم دین کا کردار ادا کیا۔ السلیم کو ایک نہایت خطرناک شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو مغرب کے خلاف اپنے فتاویٰ اور تقاریر کے ذریعے مختلف دہشت گردانہ کارروائیاں کرواتا ہے۔ السلیم، جو کہ امریکہ میں تعلیم یافتہ ہے، سی آئی اے کی تمام خفیہ معلومات اور حفاظتی رموز سے واقف ہے، اور اسے گرفتار کرنا نہایت مشکل تصور کیا جاتا ہے۔
ہالی وڈ کی فلموں میں شیعہ عالم دین کو بدنام کرنے کے لیے منفی کرداروں کو شیعہ علماء کے لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ ان فلموں میں اکثر ان بدکردار عالم دین شخصیات کی پہچان ان کے سر پر موجود سیاہ عمامے سے ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان فلموں کے پروڈیوسر ان لباسوں کے ذریعے ایران کے ان اسلامی رہنماؤں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اب تک دو معزز سادات کی قیادت میں حکومت کی ہے اور وہ سیاہ عمامے پہنتے ہیں۔ ان فلموں کا مقصد ناظرین کو ان عالی مقام شخصیات کے بارے میں بدگمان کرنا معلوم ہوتا ہے۔
اسرائیلی اداکار آلون ابوتبول نے فلم مجموعہ همه دروغها میں "السلیم" نامی شیعہ عالم دین کا کردار ادا کیا۔ السلیم کو ایک نہایت خطرناک شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو مغرب کے خلاف اپنے فتاویٰ اور تقاریر کے ذریعے مختلف دہشت گردانہ کارروائیاں کرواتا ہے۔ السلیم، جو کہ امریکہ میں تعلیم یافتہ ہے، سی آئی اے کی تمام خفیہ معلومات اور حفاظتی رموز سے واقف ہے، اور اسے گرفتار کرنا نہایت مشکل تصور کیا جاتا ہے۔
فلم پانچ مینارے نیویارک(10) میں میں ایک سخت گیر مذہبی رہنما کو "شیخ" کے نام سے پیش کیا گیا ہے، جس کی لمبی داڑھی اور سیاہ عمامہ اس کی شناخت ہے۔ اس شیخ کو نہایت شدت پسند خیالات کا حامل دکھایا گیا ہے، جو بچوں کو اکساتا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کے بارے میں جذباتی تقاریر کرتا ہے۔ وہ کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
نیوزی لینڈ کے اداکار کلیف کرٹس نے فلم انسائیڈر میں حزب اللہ کے رہنما "شیخ فضل اللہ" کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں شیخ فضل اللہ کو حزب اللہ کا رہنما دکھایا گیا ہے، جس کے محافظ نہایت شدت پسند اور متعصب ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں امریکیوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ شیخ فضل اللہ کے گرد موجود محافظوں کے چہرے سخت گیر اور رویے انتہائی غصے والے ہیں، اور وہ ہر وقت مسلح اور کسی بھی حالت میں گولی چلانے کے لیے تیار دکھائے گئے ہیں۔
فلم میں شیعہ نعروں، امام خمینی رح کی تصویر، اور شیخ فضل اللہ کو حزب اللہ کے رہنما کے طور پر پیش کرنے سے خاص پیغامات دئیے گئے ہیں
عرب اداکار احمد بن لاربی نے فلم مارشل لاء (فوجی حکومت) میں "شیخ احمد بن طلال" کا کردار نبھایا، جو دہشت گردوں کا عالم دین رہنما ہے۔ یہ وہی دہشت گرد ہیں جنہیں سی آئی اے نے عراق میں صدام حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تربیت دی تھی۔
فلم سیریانا (Syriana) میں چار شیعہ علماء کو دکھایا گیا ہے، جن میں سے تین کے سر پر سیاہ عمامہ ہے۔ ان علماء کو اس وقت پیش کیا گیا جب وہ سی آئی اے کے ایجنٹ کو اذیت دینے کے بعد ایرانی انٹیلیجنس افسر سعید الہاشمی کو امریکی ایجنٹ کو قتل کرنے سے روکتے ہیں۔ یہ علماء ایران کی جانب سے امریکہ کے خلاف حمایت میں کردار ادا کرتے ہیں اور ثالثی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
فلم بغیر میری بیٹی کے کبھی نہیں (Not Without My Daughter) میں سید محمودی کے چچا کو ایک شیعہ عالم کے طور پر دکھایا گیا ہے جو بدصورت، موٹا، باتونی، اور کھانے کا شوقین ہے۔ اس کے سر پر بھی سیاہ عمامہ دکھایا گیا ہے۔
فلم ہیری پوٹر (11)میں ایک منفی کردار، جو ہیری پوٹر کو قتل کرنے کی سازش کرتا ہے اور لارڈ وولڈیمورٹ کا وفادار ہے، شیعہ عمامے سے مشابہ ایک عمامہ پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس میں تحت الحنک بھی شامل ہے۔
فلم پرنس آف پرشیا (Prince of Persia) فارس کا شہزادہ(12 ) میں ایک قاتل اور دہشت گرد کردار "حسن-سین" دکھایا گیا ہے، جس کے سر پر سیاہ عمامہ ہے۔ اس کردار کے نام کو بھی خاص طور پر توجہ طلب بنایا گیا ہے۔ اس گروپ کو حسن صباح کی قیادت میں اسماعیلیہ فرقے کے حشاشین کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو انتہائی ماہر قاتل دکھائے گئے ہیں۔ اس کا نام "Hassansin" لکھا گیا ہے، جو دو الفاظ "حسن" اور "سین" سے مل کر بنا ہے۔ یہاں "حسن" حسن صباح کی طرف اشارہ کرتا ہے، جبکہ "سین" کو گناہ کے معنی میں لیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ لاطینی زبان میں "san" پاکیزگی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح "سین" کو ناپاکی یا غیر مقدس کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
امریکہ نے حالیہ برسوں میں سخت حملوں کی بجائے نرم حملوں کی روش کو اختیار کیا ہے، اور اس میں سب سے اہم اسلحہ سنیما رہا ہے؛ ہالی وڈ نے امریکہ کا اہم ترین آلہ بن کر اس میدان میں بنیادی اور غیر متبادل کردار ادا کیا ہے۔
امریکہ کی نرم جنگ کے ایک پہلو میں شیعہ مسلمانوں کو بدنام کرنا اور اسلام و شیعیوں کی ایک منفی تصویر عالمی سطح پر پیش کرنا شامل ہے، اور اس نے اس مقصد کو بہت ہی چالاکی اور پیچیدگی سے آگے بڑھایا ہے(13)۔
مغربی میڈیا، خاص طور پر ہالی وڈ کی فلموں میں ہمیشہ یہ پیغام عالمی ناظرین کے ذہن و ضمیر میں بٹھایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی تمام تشدد، غیر انسانی، دہشت گردانہ کارروائیاں اور عالمی نظام میں خلل ڈالنے والی کوئی بھی غیر متوقع بات، مسلمان خاص طور پر شیعہ مسلمان ہیں۔
اس مغربی حملے کا مقابلہ کرنا داخلی سنیما کی بڑی ذمہ داری ہے، جو نہ صرف اسلام اور شیعیوں کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے بلکہ مغرب کی چالاکیوں، سازشوں اور ایران و اسلام کے خلاف ان کی حکمت عملی کو بھی بے نقاب کرے۔ عوام کی میڈیا خواندگی بڑھانے کا کام بھی ثقافتی اداروں پر عائد ہے تاکہ لوگوں کو ان اقدامات سے آگاہ کیا جا سکے۔
حواشی و مآخذ:
[1] مجید صفاتاج، سنیمای سلطه (تهران:انتشارات سفیر اردهال، چاپ چهارم، 1389) ص 50 و 72-71
[2] سید حسین نصر، جوان مسلمان و دنیای متجدد([بیجا]، انتشارات طرحنو، چاپ هشتم، 1398) ص313
[3] سیدحسین شرفالدین، سیدمهدی گنجیانی (1392) هالییود و توطئه اسلام هراسی با شگرد نفوذ در ناخودآگاه، سال چهارم، شماره چهارم 104
[4] حمید مؤذنی، بازنگری انتقادی: مار و پلهی سیاستورزی ایرانی([بیجا]، انتشارات شروع، چاپ اول، 1387) ص 343-345
[5] Richardson, J. E., & Poole, E. (Eds.). (2006). Muslims and the news media
[6] Aladdin 1992
[7] The Thief of Bagdad 1940
[8] The Wrestler 2008
[9] Alon Abutbul
[10] Five Minarets in New York 2010
[11] Harry Potter and the Chamber of Secrets 2002
[12] Prince of Persia: The Sands of Time 2010
مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں :
[13] سیدمهدی گنجیانی، محمود علیپور، مرکز فرهنگی هنری دفتر تبلیغات اسلامی، اسلامهراسی در سنیمای هالیوود(قم: انتشارات موسسه بوستان کتاب، چاپ اول، 1396)
آپ کا تبصرہ